پاکستان میں صحافت – ماضی، حال اور مستقبل

صحافت پاکستان اور ہم  

نعیم ملک 

صحافت کسی بھی معاشرے کی آنکھ اور زبان ہوتی ہے۔ یہ عوام اور حکمرانوں کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کرتی ہے۔ صحافت کا کام صرف خبر دینا نہیں بلکہ عوامی شعور بیدار کرنا، معاشرتی مسائل کو اجاگر کرنا اور اقتدار کے ایوانوں کو آئینہ دکھانا ہے۔ پاکستان میں صحافت کی تاریخ جدوجہد، قربانیوں اور آزادی اظہار کی مسلسل کوششوں سے عبارت ہے۔

پاکستان میں صحافت کا آغاز

پاکستان بننے کے بعد صحافت نے ایک نئے دور کا آغاز کیا۔ ابتدا میں اخبارات ہی عوام تک خبر پہنچانے کا سب سے بڑا ذریعہ تھے۔ اُس وقت صحافت زیادہ تر سیاسی اور نظریاتی بنیادوں پر استوار تھی۔ صحافیوں نے تحریکِ پاکستان کے دوران بھی اہم کردار ادا کیا اور آزادی کے بعد بھی نئی ریاست کے مسائل اجاگر کرنے میں پیش پیش رہے۔

1947 کے بعد "جنگ"، "نوائے وقت" اور "امروز" جیسے اخبارات نے عوامی شعور اجاگر کیا۔ صحافت صرف خبر رسانی تک محدود نہ رہی بلکہ قومی بیانیے کی تشکیل میں بھی کردار ادا کرنے لگی

سنہری دور اور پھر پابندیاں

1960 اور 1970 کی دہائیوں میں پاکستان میں صحافت نے کئی نشیب و فراز دیکھے۔ ایوب خان کے دور میں سنسر شپ کا آغاز ہوا، مگر اسی دور میں جدید صحافتی ادارے بھی قائم ہوئے۔ ضیاء الحق کے دور میں تو صحافت پر سخت ترین پابندیاں لگیں، صحافیوں کو کوڑوں کی سزائیں دی گئیں، مگر یہ وہی وقت تھا جب صحافت نے اپنی اصل طاقت منوائی اور عوامی مزاحمت کا حصہ بنی۔

پریس کی آزادی کے لیے صحافیوں نے قربانیاں دیں، جیلیں کاٹیں اور سختیاں برداشت کیں۔ اسی مزاحمت نے بعد میں آزاد صحافت کی بنیاد رکھی

الیکٹرانک میڈیا کا انقلاب

2002 کے بعد پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کا دور شروع ہوا۔ نجی ٹی وی چینلز کو لائسنس ملے اور ایک دم پورے ملک میں درجنوں نیوز چینلز کھل گئے۔ صحافت کی دنیا میں ایک انقلاب آیا۔ خبر فوری طور پر عوام تک پہنچنے لگی۔ لائیو کوریج، ٹاک شوز اور انویسٹیگیٹو جرنلزم نے صحافت کو ایک نئی جہت دی۔

اس انقلاب نے جہاں صحافت کو عوامی قوت بنایا، وہیں کئی مسائل بھی پیدا کیے۔ ریٹنگ کی دوڑ میں بعض ادارے صحافت کے بنیادی اصولوں کو بھول گئے۔ سنسنی خیزی، یکطرفہ رپورٹنگ اور غیر تصدیق شدہ خبریں نشر ہونے لگیں۔ یوں صحافت کا وقار متاثر ہوا۔

صحافت کو درپیش مسائل

پاکستان میں صحافت آج بھی کئی چیلنجز کا شکار ہے:

  1. آزادی اظہار پر قدغنیں
    اکثر اوقات صحافیوں کو مخصوص خبروں سے روک دیا جاتا ہے۔ کئی رپورٹرز کو دھمکیاں ملتی ہیں اور بعض کو جان سے ہاتھ دھونا پڑا ہے۔

  2. معاشی دباؤ
    میڈیا ہاؤسز مالی مشکلات کا شکار ہیں۔ کئی صحافی بے روزگار ہو گئے ہیں اور اکثر کو تنخواہیں وقت پر نہیں ملتیں۔ اس سے صحافت کی غیر جانبداری متاثر ہوتی ہے۔

  3. ریٹنگ کلچر
    ریٹنگ اور اشتہارات کے دباؤ نے صحافت کو معیاری بنانے کے بجائے تجارتی بنا دیا ہے۔ سنجیدہ رپورٹنگ کے بجائے سنسنی خیز خبریں زیادہ دکھائی جاتی ہیں۔

  4. صحافتی تربیت کی کمی
    نئے آنے والے صحافیوں کی بڑی تعداد کے پاس پیشہ ورانہ تربیت نہیں ہوتی، جس کے باعث صحافت کا معیار گرتا جا رہا ہے۔

صحافت اور سوشل میڈیا

سوشل میڈیا نے صحافت کو ایک نیا رخ دیا ہے۔ آج ہر شخص اپنے موبائل کے ذریعے "سِٹیزن جرنلسٹ" بن چکا ہے۔ خبر چند لمحوں میں وائرل ہو جاتی ہے۔ یہ ایک موقع بھی ہے اور ایک خطرہ بھی۔ موقع اس لیے کہ عوامی آواز براہِ راست سامنے آتی ہے، اور خطرہ اس لیے کہ جھوٹی اور گمراہ کن خبریں بھی تیزی سے پھیلتی ہیں۔

سوشل میڈیا نے روایتی صحافت کو چیلنج کیا ہے، لیکن اس نے صحافیوں کے لیے نئے مواقع بھی پیدا کیے ہیں۔ اب صحافی اپنی خبر براہِ راست عوام تک پہنچا سکتا ہے، بغیر کسی ادارے پر انحصار کیے۔


مثبت پہلو

مسائل کے باوجود پاکستان کی صحافت نے کئی بڑے کارنامے انجام دیے ہیں۔ بدعنوانی، کرپشن اور ناانصافی کے بے شمار کیسز میڈیا کی وجہ سے منظر عام پر آئے۔ عوامی مسائل کو اجاگر کرنے اور حکمرانوں کو جوابدہ بنانے میں صحافت نے کلیدی کردار ادا کیا۔ قدرتی آفات، جیسے زلزلے اور سیلاب کے دوران میڈیا نے نہ صرف معلومات فراہم کیں بلکہ عوامی مدد کے لیے اپیلیں بھی کیں۔

مستقبل کے امکانات

پاکستان میں صحافت کا مستقبل چیلنجز سے بھرپور ہے مگر امکانات بھی موجود ہیں۔ اگر صحافی اپنے پیشے کے بنیادی اصول یعنی غیر جانبداری، سچائی اور عوامی مفاد کو مقدم رکھیں تو صحافت ایک بار پھر اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کر سکتی ہے۔

ڈیجیٹل صحافت کا دور آ رہا ہے۔ آن لائن اخبارات، بلاگز اور یوٹیوب چینلز نے ایک نئی دنیا پیدا کر دی ہے۔ نوجوان صحافی اگر ٹیکنالوجی کا درست استعمال کریں تو وہ نہ صرف روزگار کما سکتے ہیں بلکہ مثبت تبدیلی بھی لا سکتے ہیں۔


نتیجہ

پاکستان میں صحافت ایک طویل اور کٹھن سفر سے گزری ہے۔ یہ کبھی آزادی کا علمبردار رہی، کبھی سنسر شپ کا شکار ہوئی، کبھی عوام کی آواز بنی، تو کبھی ریٹنگ کے کھیل میں پھنس گئی۔ مگر آج بھی اگر کوئی قوت ہے جو حکمرانوں کو جوابدہ بناتی ہے، تو وہ صحافت ہی ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ صحافی اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں، پیشہ ورانہ اصولوں پر کاربند رہیں اور عوامی مسائل کو ترجیح دیں۔ اگر ایسا ہو جائے تو پاکستان میں صحافت نہ صرف آزاد بلکہ باوقار بھی ہو سکتی ہے۔

Post a Comment

0 Comments