کرائم کنٹرول ڈیپاٹمنٹ اس کا قیام
:تعارف
کرائم کنٹرول ڈیپاٹمنٹ اس کا قیام سی ایم پنجاب محترمہ مریم نواز شریف کی منظوری سے عمل میں لایا گیا یہ پولیس آرڈر 2002
کے تحت بنایا گیا ہے اس کا مقصد 17سگین قسم کے جرائم جن میں قتل ،ڈکیتی ،بھتہ خوری،اغوا،گاڑی چوری اور اغوا برائے
تاوان ز مینی قبضہ گروپس ،اور منظم مافیا گروپس جیسے جرائم پر تفتیش کاروئیاں اور ان کا چالان کرنا ہے ان کے اپنے پولیس سٹیشن کا
قیام عمل میں لایا جائے گا اس کے ساتھ اس ڈیپاٹمنٹ کو تما م جدید سہولیات سے مزین کیا گیا ہے جن میں جدید نگرانی کے الات
ڈرانز اور کرائم میپنگ سوفٹ وئیر اس کے ساتھ تمام خفیہ ایجنسیز کی مدد بھی شامل ہو گی یہ ڈیپاٹمنٹ ایک ایڈیشنل آئی جی کی
سربرائی میں 4ہزار 250 افراد پر مشتمل ایک فورس ہے جس میں 3 ڈی ائی جیز اور 10 ایس ایس پیز شامل ہیں مزید اس میں
212 انچارج آپریشنز انویسٹی گیشنز اور 10488 ائے ایس ائی ،425 ہیڈ کانسٹیبل اور 2125 کانسٹیبل شامل ہیں اے کیٹگری
اضلاع میں 1500 اور بی کیٹگری میں 850 افیسران اور اہلکار شامل ہوں گے پنجاب گورنمنٹ نے اس کے لئے 5۔56 بلین
کا فنڈ الوکیٹ کیا ہے
اب سی سی ڈی کے بارے میں عام عوامی رائے اور اس کے معاشرے پر ہونے والے اثرات کا ایک تفصیلی جائزہ
ایچ آر سی پی (ہیومن ر ائیٹس کمیشن پاکستان )کے مطابق اب تک قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے 500 سے
زاہد مشتبہ انکاوئنٹرز ہو چکے ہیں جن میں 670 سے زائد افرادمارے جا چکے ہیں جو کہ عدالتی کاروائی کے بغیر ماورائے قانون
اقدام ہے ان کے مطابق پنجاب انتظامیہ کا یہ خیال ہے کہ انکاوئنٹر جرائم کنٹرول کرنے کا ایک جائز طریقہ ہے لیکن اس کا مطلب
ہے کہ عدالتی فوجداری نظام مکمل طور پر ناکارہ ہو چکا ہے پاکستان میں انکاوئنٹر کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی کے جرائم کے خلاف
ریاستی اداروں بیانیے کی کرائم کنٹرول ڈیپاٹمنٹ کے بڑھتے انکاوئنٹر واقعی ہی خطرناک مجرموں کے خاتمے کی علامت ہیں یا
ریاستی اداروں کی حکمت عملی جس کا مقصد خوف پیدا کر کے نظم و ضبط قائم کرنا فروری2025 سے اکتوبر 2025 تک 42
رپوٹیڈ انکاوئنٹر میڈیا میں رپورٹ ہوئے جن میں 58 مشتبہ افراد ہلاک اور 17 زخمی ہوئے کافی جگہ پر سی سی ڈی کو بھی جانی
نقصان اٹھانا پڑا ان انکاوئنٹر میں وہ افراد شامل تھے جو کہ پہلے سے سنگین مقدمات میں ملوث تھے اور مطلوب تھے لیکن اس کے
ساتھ ساتھ ان کی گرفتاری یا عدالتی کاروائی کی تفصیلات کبھی سامنے نہیں آئی اور نہ ہی ایف آئی آر ،گواہان اور عدالتی کاروائی کے
کوئی شواہد ہیں قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر کوئی انکاوئنٹر واقعی "قانونی دفاع" کے دائرے میں آتا ہے تو اس کی مکمل تفصیل
عوامی ہونی چاہیے اس سے عوام کا اداروں پر اعتماد بحال رہتا ہے جب کہ سی سی ڈی اور پولیس ترجمان کا موقف اس سے مختلف
ہے ان کے مطابق سی سی ڈی صرف ان عناصر کے خالف کاروائی کر رہی ہے جو کہ عوامی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں
ترجمان کے مطابق
ہم کسی بےگناہ کو نشانہ نہیں بناتے ہر انکاوئنٹر سے پہلے خفیہ اطلاعات نگرانی اور ثبوت اکھٹے کیے جاتے ہیں ترجمان کے مطابق ان
کی کاروائیوں سے اب تک درجنوں گینگ ٹوٹ چکے ہیں اور شہری علاقوں میں ڈکیتی اور اغوا کے کیسیز میں نمایاں کمی آئی ہے اس
کے برعکس میڈیا رپورٹس میں انکاوئنٹر کی کوریج یکطرفہ ہوتی ہے زیادہ تر اخبارات میں صرف پولیس بیان شائع ہوتے ہیں جبکہ
ایف آئی آر نمبر اور آزاد ذرائع سے تصدیق کا کوئی خطرخاہ نظام موجود نہیں ہے بعض رپورٹس میں متضاد بیانات بھی سامنے آئے
جیسے کہ لاہور اور گوجرنوالہ میں انکاوئنٹر میں مشکوک گرفتاری کے چند گھنٹوں بعد ہی ملزمان کے مارے جانے کی خبریں لاہور
ہائی کورٹ میں اکتوبر 2025میں ایک درخواست پر سماعت کرتے ہوئے حکم جاری کیا کہ آئی جی پنجاب پولیس سی سی ڈی کے
انکاوئنٹر کے طریقہ کار اور شفافیت کا جائزہ لے اور رپورٹ پیش کرئے
زیرنظر :تمام ڈیٹا مختلف نیشنل اخبارات کی ویب سائیٹس سے لیا گیا ہے جن کے لنک نیچے درج کر دئیے گئے ہیں
https://www.dawn.com/news/1918011
https://www.dawn.com/news/1934727
https://www.dawn.com/news/1926231
https://voicepk.net/2025/09/ccd-encounters-12-suspects-killed-in-three-days/
https://www.nation.com.pk/01-Oct-2025/ccd-claims-five-dacoits-shot-dead-encounter
https://www.dawn.com/news/1946172
https://www.app.com.pk/domestic/ccd-encounter-suspect-killed-by-firing-of-accomplices/
https://www.nation.com.pk/08-Oct-2025/four-accused-killed-encounters-ccdhttps://www.dawn.com/news/1949772


0 Comments